سحر تاب رومانی … لفظ اُسکے ہیں، خیالات چُرائے گئے ہیں

لفظ اُسکے ہیں، خیالات چُرائے گئے ہیں
صاف لگتا ہے کہ اشعار بنائے گئے ہیں

زندگی دھوپ کے صحرا کا سفر ہے صاحب
صرف تصویر میں اشجار دکھائے گئے ہیں

پگڑیاں جن سے سنبھلتی ہی نہیں ہیں اپنی
آج منصب پہ وہی لوگ بٹھائے گئے ہیں

عین ممکن ہے وہی جا کے نشانے پہ لگیں
وہ جو کچھ تیر ہواؤں میں چلائے گئے ہیں

سوچتا ہوں کہ میں ہر دوڑ میں پیچھے کیوں ہوں
مجھ کو تو زیست کے انداز سکھائے گئے ہیں

جو مری شب کی سیاہی کو ذرا کم کرتے
وہ دیے شام سے پہلے ہی بجھائے گئے ہیں

میں نے پھولوں کی تمنّا میں گزاری ہے حیات
میری راہوں میں سدا خار بچھائے گئے ہیں

Related posts

Leave a Comment